یہ جنگ کوئی نہیں جیت سکتا

280

سود کی حمایت میں عدالت میں پیش ہونے سے انکار یا سرکاری وکیل کے غائب ہو جانے کا مطلب واضح ہے غالباً ریاست مدینہ کے دعویداروں کے لیے حجت تمام ہو گئی ہے۔ جس جنگ کو جیتنے کا دعویٰ مسلمان تو کجا آسمانی مذہب کا کوئی پیروکار نہیں کر سکتا ریاست مدینہ کے دعویدار بھی اس جنگ میں مصروف ہیں یعنی اللہ اور رسولؐ سے جنگ۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ پاکستانی قوم کا مال کھانے والے سابق حکمرانوں کو اللہ نے رسوا کر رکھا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان حکمرانوں خصوصاً میاں نواز شریف کی رسوائی کا سبب پاناما لیکس یا عمران خان کی چیختی دھاڑتی تقریریں نہیں ہیں بلکہ سود کے حق میں عدالت جانے کا فیصلہ میاں نواز شریف کے دور میں کیا گیا اور اس کے بعد سے پاکستان کے پیچیدہ عدالتی نظام کی بھول بھلیوں میں یہ معاملہ گردش کرتا رہا۔ کبھی ہمارا چیف جسٹس پوچھتا ہے کہ تجارت میں بھی نفع ہے اور سود میں بھی تو دونوں میں فرق کیا ہے۔ گویا 14 سو برس قبل کے کفار قریش کا سوال آج بھی پوچھا جا رہا ہے اس کا سادہ سا اور حتمی جواب اللہ نے قرآن میں دے دیا ہے کہ
’اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔‘
ہمارے لیے یہی بہت ہے کہ اللہ نے واضح حکم جاری کر دیا۔ اس کے علاوہ بھی اگر ہمارے حکمران صرف قرآن سے رہنمائی حاصل کریں تو شاید کسی وکیل کی ضرورت ہی نہ پڑے قرآن کہتا ہے کہ
’جو لوگ سود کھاتے ہیں ان کا حال اس شخص کا سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر بائولا کر دیا ہو۔ اور اس حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے آئندہ کے لیے وہ سود کھانے سے باز آجائے۔ تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا سو کھا چکا اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو اس کے بعد بھی اس حرکت کا اعادہ کرے وہ جہنمی ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ (البقرہ۔275)
آگے چل کر مزید سخت تنبیہ اور وہ اعلان ہے جس کے حوالے سے ہمارے حکمران باز آنے کا نام نہیں لے رہے۔
’اے لوگو جو ایمان لائے ہو خدا سے ڈرو اور جو کچھ سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہو جائو کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اب بھی توبہ کر لو (اور سود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حقدار ہو۔ نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ (البقرہ۔278-79)
اگر چہ یہ باتیں لکھنے اور دہرانے کی ضرورت تو نہ تھی لیکن شاید اس کے ذریعے ایسا کام کرنے والوں کے ذہن میں کوئی بات آجائے۔ لیکن عدالت عظمیٰ میں پیر کے روز جو کچھ ہوا وہ یہی ہے کہ اسٹیٹ بینک کا وکیل عدالت میں پیش ہی نہیں ہوا۔ جانتے تو یہ بھی ہیں کہ ان کے پاس سود کو تجارت کے مساوی ثابت کرنے کے لیے کوئی دلیل ہے ہی نہیں بس معاشی تنگی اور عالمی ساہو کاری نظام کا بہانہ ہوگا۔ لیکن معیشت اور معاشی تنگی کی بات بھی اللہ نے قرآن میں بتا دی کہ
’جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کی زندگی تنگ کر دوں گا اور اسے قیامت میں اندھا کرکے اٹھائوں گا۔ وہ کہے گا کہ میں تو آنکھوں والا تھا مجھے اندھا کیوں اٹھایا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا! ہاں اسی طرح تو ہماری آیات کو جب وہ تیرے پاس آئی تھیں تو نے بھلا دیا۔ اسی طرح آج تو بھلایا جا رہا ہے۔ (طٰہٰ۔ 124-126)
تو یہ ہے معیشت کی تنگی کے بہانے کا جواب۔ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ عدالت نے برہمی کا اظہار کردیا اور اگلی سماعت میں معاملہ طے ہو جائے گا۔ بلکہ یہ معاملہ تقریباً تیس برس سے عدالتوں کے نظام کی نذر ہے۔ کیا عدلیہ کے ججوں اور ماہرین کے سامنے قرآن کے کھلے احکامات نہیں ہیں؟ لیکن مسئلہ یہی ہے کہ یہ لوگ صحیح راستے پر آنے کو تیار ہی نہیں۔ آج جج نے تنبیہ کی ہے لیکن سود اور باطل کے جس نظام کے علمبردار ہمارے حکمران ہیں وہ باز آنے والے نہیں۔ عدالت عظمیٰ نے حرمت سود پٹیشن کی ازسر نو سماعت کرکے اچھا کام کیا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ پوری دنیا میں سودی نظام چل رہا ہے لیکن ساتھ ساتھ دنیا اس نظام سے چھٹکارا بھی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اگر اچھی معیشت کی خاطر غیر مسلم تجارت سے سود کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو مسلمان ممالک کے مسلمان حکمران اچھی آخرت کے لیے سود سے جان چھڑا لیں۔ اچھی زندگی تو نصیب میں نہیں ہے۔ اللہ اور رسولؐ سے جنگ کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ معیشت بہتر بنائیں گے۔ زندگی آسان بنا لیں گے۔ ایسا کیونکر ممکن ہے۔ اللہ اور رسولؐ سے جنگ کوئی نہیں جیت سکتا۔ ہمارے حکمران عزت و ذلت حکومت ملنے اور حکومت سے جانے کو سمجھتے اور کہتے ہیں لیکن کیا موجودہ حکمرانوں کو ان کے عوام کے سامنے عزت نصیب ہوئی ہے۔ اگر عوام کو ان حکمرانوں کے انتقامی ہتھکنڈوں کا خوف نہ ہو تو سڑکوں پر گھسیٹنے اور چیخوں کی آواز کی باری ان حکمرانوں کی ہوگی۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان تو پہلے پاکستانی معیشت سے سود ختم کرنے کی بات کرتا تھا لیکن جب سے عالمی ساہو کاروں کے نمائندے کو یہاں لا بٹھایا گیا ہے اس وقت سے سود سے محبت بڑھ گئی ہے۔ اب پی ٹی آئی کی حکومت جو دراصل مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے لوگوں پر مشتمل گروہ ہے، اپنے معیار کے مطابق بھی ذلت و رسوائی کی حقدار بن چکی ہے۔ اسے پی ڈی ایم یا کوئی مخالف سیاسی جماعت رسوا نہیں کرے گی۔ اس نے اپنے رب اور رسولؐ سے جنگ قبول کرکے خود رسوائی قبول کی ہے۔ جب سب سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شریعت عدالت نے اور پھر عدالت عظمیٰ نے سود کے خاتمے کا حکم دیا تھا، اگر اس وقت حکمران اس راہ پر چل پڑے ہوتے تو آج سود کی لعنت سے مکمل چھٹکارا حاصل کر چکے ہوتے۔ اگر کوئی انفرادی حیثیت میں سود لینے پر مصر ہو تو بھی اس کے انجام کے بارے میں اللہ نے واضح حکم جاری کردیا ہے۔ لیکن یہی کام اگر ریاست کرے تو اس کی پکڑ زیادہ سخت ہوگی۔ اور موجودہ ریاست نے تو اپنی پکڑ اس سے بھی زیادہ سخت کرنے کا جواز پیدا کر دیا ہے۔ اس کے حکمران وزیراعظم عمران خان اسے مدینہ جیسی ریاست قرار دیتے نہیں تھکتے انہیں تو دو باتوں کا جواب دینا ہوگا۔ سود کے حق میں جنگ کا انجام تو سامنے ہے۔ لیکن مدینے کی ریاست کو بدنام کرنے کا جواب بھی انہیں دینا ہے۔ یہاں تو وکیل غائب ہو کر تاخیری حربہ استعمال کر سکتا ہے لیکن اللہ کی عدالت میں غائب ہونے کی بات ناممکن ہے۔ بات صرف معاشی تنگی کی نہیں ہے۔ جب اللہ سے جنگ کریں گے تو زمین سونا نہیںاگلے گی آسمان رحمتیں نازل نہیں کرے گا بلکہ وبائیں آئیں گی، بیماریاں پھیلیں گی اور اپنی ہلاکت خیزی بھی دکھائیں گی۔ بیماریاں تو ہر جگہ ہوتی ہیں لیکن اللہ کی نافرمانی کرنے والوں کو زیادہ لپیٹ میں لیتی ہیں۔ پھر بھی نہ سمجھیں تو کیا کیا جا سکتا ہے۔