نقارۂ خدا

150

یہ کیسا المیہ ہے کہ ملک کے حالات پر ایسے ایسے لوگ نہ صرف تبصرہ کررہے ہیں بلکہ ملک کے مستقل کے بارے میں پیش گوئیاں بھی کررہے ہیں۔ اور تماشا یہ بھی ہے کہ اپنے خاندان اور اپنی اولاد کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ لاعلمی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے اعمال اور افعال سے بھی بے خبر ہیں۔ زبان خلق کو نقارۂ خدا کہا جاتا ہے مگر جو لوگ خدا پر یقین نہیں رکھتے وہ زبان خلق کو کیا اہمیت دے سکتے ہیں۔
مریم نواز خاموش تھیں تو کہا کرتے تھے کہ کرپشن کے بوجھ نے ان کی قوت گویائی کو کچل دیا ہے حالانکہ ان کی خاموشی خاموش سفارت کاری کی طرح خاموش سیاست کاری تھی۔ وہ مناسب وقت کی منتظر تھیں اور وقت نے موقع بھی فراہم کردیا وہ اس موقع پر موثر انداز میں اپنے کھیل رہی ہیں۔ ان کے اصل پتے ترپ کے پتے ثابت ہورہے ہیں۔ پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا ان کی خاموشی کا سبب بن گئے ہیں سیاست میں معروف اور مشہور ہونا ہی کامیابی کا پہلا زینہ ہوتا ہے۔ جس نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھ دیا رُکتا ہی نہیں بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔
تحریک انصاف کی نالائقی اور سیاسی شعور کی کمی مقتدر حلقوں پر ظاہر ہوچکی ہے شاید یہ کہنا حقائق سے زیادہ قریب ہوگا کہ حکومت اور اس کے ترجمانوں کے عدم سیاسی شعور نے ملک و قوم کے مسائل اور مشکلات میں ناقابل برداشت اضافہ کردیا ہے۔ یہ صورتحال اتنی سنگین اور دل آزار ہے کہ مقتدر طبقے کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہی ہے۔ وہ اس مخمصے اور تذبذب کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے لیے پانچ سالہ مدت کی جو یقین دہانی کرائی گئی تھی اسے کیسے نبھایا جائے۔
یہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے نہ کوئی سیاسی مخمصہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو فری ہینڈ دے کر پانچ سالہ مدت پوری کرائی گئی مگر تحریک انصاف نے فری ہینڈ کو باڈی فری سیاست میں تبدیل کردیا ہے۔ کاش! وزیر اعظم عمران خان سمجھ سکتے کہ فری ہینڈ اور باڈی فری میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ایسا فرق جسے شرمناک بھی کہا جا سکتا ہے مگر تحریک انصاف کی حکومت نے اس فرق کو شرفا اور اشرافیہ کا فرق بنا دیا ہے۔ شاید یہ بات ان کی سمجھ میں نہ آسکے سو، یہ کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان نے احتجاج کو دھرنے میں تبدیل کرکے جو فرق پیدا کیا تھا وہی فرق فری ہینڈ اور باڈی فری میں ہے۔
پاکستان کے کچھ بڑ بولوں کا کہنا ہے کہ جو ہمارے جذبات اور احساسات سے کھیلے گا اسے قدموں تلے روند دیا جائے گا۔ جسے شک ہو وہ فوج کے ترجمان کی پریس کانفرس کو کان کھول کر سن لے اس کی آنکھیں بھی کھل جائیں گی بھارت بڑھکے مارنا چھوڑ دے ورنہ… اتنا ماریں گے کہ چتا جلنے کے بعد بھی مار کے نشانات نہ مٹیں گے۔ بھارتیوں کو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ مودی ذہنی مریض ہے اس کی فطرت میں دنگا فساد شامل ہے۔ چھاج کو بولتا دیکھ کر ایک چھلنی بھی بول پڑی کہنے لگی کہ کچھ سیاسی بونے بڑے فخر سے غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیتے ہیں اور کچھ سیاسی باندیاں اپنی راج کماری کو خوش کرنے کے لیے اس کی پلاسٹک سرجری کو قدرتی حسن قرار دے رہی ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ بیان بین السطور کا ایک خوب صورت اسلوب ہے۔ غالباً ان کا اشارہ بنی گالہ کی طرف ہے۔
کبھی کبھی چودھری فواد شیخ رشید کی کمی پوری کرکے عوام کا دل خوش کرتے رہتے ہیں موصوف نے اپوزیشن کے سیاسی جلسوں پر ارشاد نما جو تبصرہ کیا ہے اسے ایک اچھا بیان کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ وطن عزیز کی سیات میں بیان کی جگہ بیانے نے لے لی ہے۔ موصوف کا کہنا ہے کہ اپوزیشن دو کلو گوشت کے حصول کی خاطر گائے ذبح کرنا چاہتی ہے۔ تبرا کے خوگر لوگوں کا کہنا ہے کہ چودھری صاحب نے بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے اکسانے کی کوشش کی ہے۔ جسے سعی نامشکور ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ بھارتیوں کے لیے گائے ہی مقدس اور محترم ہے کہ اسے ماں کا درجہ دیتے ہیں اب یہ الگ موضوع ہے کہ اس معاملے میں ان کا کردار بھی ہمارے ہی جیسا ہے۔ معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض نے اپنی ایک خوبصورت نظم میں بھاریتوں سے کہا تھا کہ تم بھی ہمارے ہی جیسے ہو، ہم وطن عزیز کو مادر وطن کہتے ہیں مگر اس کی چادر کو تار تار کرتے رہتے ہیں، لفظوں کی جگالی ہماری فطر ت بن چکی ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ تو اپوزیشن کی سخاوت کا ثبوت ہے کہ دو کلو گوشت کے لیے گائے ذبح کر رہی ہے حاتم طائی نے بھی دو کلو گوشت کے لیے اپنا گھوڑا ذبح کردیا تھا کہ مہمان کی خاطر تواضع کے لیے کھانے پینے کا سامان موجود نہ تھا ممکن ہے کہ اپوزیشن کے گھر میں گائے کے سوا کچھ نہ ہو، بخدا ہم سیاسی مجبوری کی بات نہیں کررہے کہ وطن عزیز میں ذبح کرنا مجبوری نہیں شوق بن چکا ہے۔ عدم سیاسی شعور کی وجہ سے سیاست دان ملک و قوم کو مختلف مشکلات میں مبتلا کرتے رہتے ہیں کیونکہ یہ لوگ سیاست دان نہیں سیاسی رنگروٹ ہیں۔ وراثت در وراثت کے مکرو عمل نے انہیں سیاسی تربیت سے دور رکھا جائے گا جب تک سیاست کے لیے تربیت یافتہ ہونا ضروری قرار نہیں دیا جائے گا تو ملک استحکام اور قوم خوشحالی سے محروم رہے گی۔