بڑھتی ہوئی وارداتیں اور حکومتی کردار

139

مہنگائی نے جہاں سفید پوش آدمی کا جینا حرام کر دیا ہے وہاں اس کی عزت نفس کو بھی مجروح کرکے رکھ دیا ہے سفید پوشی کا بھرم اب بھرم نہیں رہا سفید پوش لوگ ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوگئے ہیں اور جگہ جگہ برقع پوش یا باریش بزرگ چپکے سے سرگوشی کے انداز میں مانگتے نظر آرہے ہیں روزمرہ کی اشیاء اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ اشرافیہ کی بھی چیخیں صاف سنی جاسکتی ہیں جس سے چوری، ڈکیتی اور رہزنی کی وارداتوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے سرکاری مشینری بے بس نظر آرہی ہے شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جس دن ایک پولیس اسٹیشن کی حدود میں ایسا واقع پیش نہ آیا ہو ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ رپورٹ نہ ہوا ہو، لیکن ہو ضرور رہا ہے۔ بے شمار شریف شہری تھانے جاکر رپورٹ لکھوانے کے بجائے نقصان برداشت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں وہ اس لیے کہ رپورٹ کروانے سے کون سا مال واپس آئے گا الٹا عزت نفس مجروح ہوگی۔ ڈکیتی کی واردات کی ایف آر کروانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا اونٹ کو سائیکل پر بٹھانا۔ جتنی پوچھ گچھ مدعی سے کی جاتی ہے اس سے آدھی کوشش بھی کی جائے تو ملزم ہاتھ لگ سکتا ہے۔ درجنوں موٹر سائیکل چوری ہوتے ہیں لیکن مجال ہے کسی کو کبھی واپس ملا ہو! اگر کسی کو مجبور ہوکر مل بھی گیا ہے تو جس کو ملا ہے اس کی حالت کا پتا کرو وہ چلا چلا کر کہے گا بھائی اس سے تو بہتر تھا ملتا ہی نہ، یہ تو اس کی حالت ہے جس کو مل گیا اور جن کو واپس ہی نہیں ملے آئے روز پولیس چور ڈاکو گرفتار کرتی رہتی ہے لیکن یہ چوریاں اور ڈکیتیاں ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتیں ایسا کیوں ہے کہیں نہ کہیں تو گڑ بڑ ہے نا۔
نہ چینی حکومت سے کنٹرول ہوئی نہ آٹا اور نہ دیگر اشیاء ستم ظریفی تو یہ ہے حکومت کے اپنے بنائے گئے یوٹیلیٹی اسٹوروں اور سہولت بازاروں میں آٹا چینی اور گھی دستیاب نہیں ہے اگر کہیں بھولے سے آگیا تو وہ بھی من پسند افراد کی نظر ہوگیا ایسے میں عوام کیا کریں مجبور ہوکر عوام کو دوبارہ کریانہ اسٹوروں کا رخ کرنا پڑتا ہے جہاں بیٹھے ناجائز منافع خور ان کے کپڑے اتروا لیتے ہیں، ایسے دکاندار جو سارا سال آٹا بیچتے ہیں ان کو مناسب ریٹ پر آٹا فراہم کریں اور موجودہ ریٹ پر سیل کروائیں اور اپنے افسران کی توانائی اور حکومت کا سرمایہ بچائیں جو خالی لگے ٹینٹوں کا بل ایک دو ماہ بعد لاکھوں روپے ڈال دیں گے جس کا عوام کو رتی بھر فائدہ نہ ہوسکا۔ بلدیہ کا کوئی صاحب ثروت بندہ اپنی جیب سے یہ سارا سامان خرید کر بلدیہ والوں کو رینٹ پر دے دیتا ہے جب بل بنتا تو یقین مانیں اس کی پورے سال کی روزی کا بندوبست ہوجاتا ہے اور تمبو قناتیں فری میں بچ جاتی ہیں ایسا کرنا جرم نہیں ہے اگر یہ اپنی جیب سے کرے تو، اصل میں یہ بلدیہ کے فنڈ ہی سے ایسا کرتا ہے اس لیے جرم گنا جائے گا۔ کرنا تو اس کو یہ چاہیے کہ یہ سامان خرید کر رکھ لے اور جب بھی ماہ رمضان میں یا ایسے دنوں جب ضرورت ہو بلدیہ کے گودام سے نکالے اور لگادے اور اگر نہیں سنبھال سکتے تو چند دن استعمال کیے ہوئے سامان کو کسی ٹینٹ سروس والے کو بیچ دے تاکہ خرچہ کم سے کم آئے خیر کون پوچھتا ہے بہرحال روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا اور وافر مقدار میں مہیا کرنا حکومت کی ذمے داری ہے جس میں وہ بالکل صفر نظر آرہی ہے۔
جب تک مہنگائی کنٹرول نہیں ہوتی اس وقت تک امن و امان کی صورت حال بہتر نہیں ہوسکتی چاہے افسران کے روز تبادلے کیے جائیں یا لائن حاضر کیے جائیں روز مرہ اشیاء کی قیمتوں کو بلا تفریق کنٹرول کیا جائے تاکہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں عوام کو کوئی سروکار نہیں کہ آپ کس کے خلاف چارج لگا رہے ہیں آپ کس کی کرپشن بے نقاب کررہے ہیں کس کو جیل بھیج رہے ہیں اور کس کا نام ای سی ایل میں ڈال رہے ہیں عوام کا مسئلہ روٹی ہے اور عوام کو روٹی کمانے اور روٹی کھانے دی جائے تاکہ آپ احتساب کا عمل جاری رکھ سکیں اور عوام جسم کا رشتہ روح سے قائم رکھ سکیں حالت یہ ہے دن دہاڑے سرعام شہروں میں ڈکیتیاں ہورہی ہیں اور گن پوائنٹ پر عوام کو لوٹا جارہا ہے۔