نجیب ایوبی

146

سلطان سلیم بن بایزید ثانی کے انتقال کے بعد سلطان سلیمان اول سلطنتِ عثمانیہ کے دسویں فرماں روا اور خلافتِ اسلامیہ کے دوسرے عثمانی خلیفہ قرار پائے۔ 1520ء سے 1566ء تک 46 سال تک حکمرانی کے فرائض انجام دیئے۔ سلطان سلیمان اول کا شمار سلطنت عثمانیہ کے سب سے عظیم اور مدبر حکمران کے طور پر کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے بے مثال عدل و انصاف اور لاجواب انتظام کی بدولت پوری مملکتِ اسلامیہ کو خوشحالی اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن کردیا۔ انہوں نے مملکت کے لیے قانون سازی کا جو خصوصی اہتمام کیا اس کی بنا پر انہیں سلیمان قانونی کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اہلِ مغرب ان کی عظمت کے اس قدر معترف ہیں کہ مغربی مصنفین انہیں سلیمان ذیشان یا سلیمان عالیشان اور سلیمان اعظم کہہ کر پکارتے ہیں۔
ان کے زمانے میں متعدد اعلیٰ عدالتی قوانین وضع ہوئے اور انتظامی ضابطے بنائے گئے۔ اور ایسے سماجی، معاشرتی قواعد رائج کیے گئے جن کی بنیاد شریعتِ اسلامی پر رکھی گئی تھی۔ امیرالمومنین سلیمان قانونی نے اپنے چھیالیس سالہ دورِ اقتدار میں ایک دن کے لیے بھی جہاد کو موقوف نہیں ہونے دیا، اور مسلسل جہاد کے ذریعے خلافت کی حدود کو توسیع دیتے رہے، یہاں تک کہ اسلامی خلافت کی حدود کو ایشیا، یورپ اور افریقہ کی انتہاؤں تک پہنچا دیا۔ ان کی حکومت میں سرزمینِ حجاز، ترکی، مصر، الجزائر، عراق، کردستان، یمن، شام، بیت المقدس، خلیج فارس اور بحیرۂ روم کے ساحلی علاقے، یونان اور مشرقی و مغربی ہنگری شامل تھے۔ اس کے بعد سلطنتِ عثمانیہ اور خلافتِ اسلامیہ ان حدود سے آگے نہیں بڑھ سکی۔
سلیمان اول کو یہ انتظامی و جہادی صلاحیتیں اپنے والد سلطان سلیم بن بایزید ثانی سے یوں سمجھیں ورثے میں ملی تھیں۔ انہوں نے اپنے والد سے 16 سال تک جنگی فنون کی تربیت حاصل کی۔ سلیم اول نے بطور خاص اس بات کا اہتمام کیا تھا کہ ابتدائی عمر میں ہی سلیمان دینی تعلیم سے کماحقہٗ واقف ہوجائیں۔ سات سال کی عمر میں سلیمان کو سائنس، تاریخ، ادب، الٰہیات اور جنگی فنون سیکھنے کے لیے توپ کاپی محل، قسطنطنیہ میں بھیجا گیا تھا۔
سلیمان کی انتظامی صلاحیتیں اُس وقت کھل کر سامنے آئیں جب ان کو سلطنت کے مختلف صوبوں میں حاکم مقرر کیا گیا۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنے دادا سلطان بایزید ثانی کے زمانے میں کفہ کی سنجق (صوبے) میں حکمرانی کے فرائض انجام دیئے۔ انہوں نے مغنیسیا، ادرنہ اور صاروخان کی حکمرانی کی ذمہ داریاں بھی انجام دیں۔ سلیم اول نے جب ایران پر حملہ کیا تو سلیمان نائب کی حیثیت سے قسطنطنیہ میں موجود تھے۔
سلیمان اوّل قانونی کے دور میں خلافت کے زیر اثر علاقے ہوں یا وہ علاقے جو براہ راست سلطنت میں نہیں آتے تھے جیسے کہ ہندوستان، افغانستان اور دیگر مسلم ممالک۔۔۔ ان سب میں خلافت کا معنوی اثر رسوخ تھا۔ تمام دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے عثمانی خلافتِ اسلامیہ ہی امیدوں کا مرکز تھی۔ سارے مسلمان مرکزِ خلافت کا نہ صرف احترام کرتے تھے بلکہ اسے روحانی اور دنیاوی مرکز تصور کرتے تھے، ماسوائے ایران کی صفوی حکومت کے۔
عثمانیوں کے علاوہ دیگر مسلمان حکمران بھی خلیفہ سے سندِ حکومت حاصل کرنے کو اپنے لیے باعثِ افتخار سمجھتے تھے اور اُس وقت تک تختِ حکومت پر نہیں بیٹھتے تھے جب تک کہ خلیفہ کی جانب سے خلعتِ فرماں روائی جاری نہیں کردی جاتی۔ خلیفہ کی جانب سے خلعتِ فرماں روائی جاری ہونے کے بعد اس بات کا اہتمام ہوتا تھا کہ دربار منعقد ہو، جس میں خلیفہ کی جانب سے جاری کیے گئے فرمان کو پڑھ کر سنایا جاتا اور خفہ کا نامزد سفیر یا نمائندہ نئے بادشاہ کو خلعت پہناتا اور کمر میں تلوار دیتا، اقرار و پیمان لیتا، عدل و انصاف کی تاکید کرتا اور سندِ حکمرانی پڑھ کر سناتا۔
اور وہ علاقے جہاں مسلمان اقلیت میں تھے وہاں کے لیے سلطان و خلیفہ کی طرف سے خصوصی رقم مختص کی جاتی جس سے دینی و دنیوی تعلیم کا بندوبست ہوتا۔ یہی نہیں بلکہ وہاں کی غیر مسلم حکومتوں کو مسلمانوں کو اپنے مذہبی شعائر پر عمل کرنے اور عبادت کی آزادی دینے کا پابند کیا جاتا۔ جہاں ایسا ممکن نہیں تھا وہاں سیاسی دباؤ بھی استعمال کیا گیا، جس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
سلیمان نے اپنے 46 سالہ دورِ حکومت میں خلافتِ عثمانیہ کو سیاسی برتری دلوانے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے انتھک محنت کی۔ اُس کا یہ کارنامہ اس لحاظ سے بھی بے حد ممتاز ہے کہ جس دور میں سلطان بایزید اور سلطان سلیم نے حکومت کی اُس زمانے میں مسیحی و روم کی طاقتیں، مغربی اقوام صلیبی پرچم تلے متحد ہورہی تھیں اور کلیسا اور پاپائے روم کی قیادت میں بڑی بڑی شخصیات کے جلو میں خلافتِ اسلامیہ کے سامنے آنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرچکی تھیں۔
شہنشاہ چارلس پنجم جو یورپ کے نصف سے زائد حصے پر حکمران تھا جس میں موجودہ اسپین، بیلجیم، ہالینڈ اور جرمنی شامل تھے، ادھر انگلستان میں ملکہ ایلزبتھ اول حکمران تھی اور ہنگری پر شاہ لوئی کا سکہ چل رہا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب فرانس، انگلستان اور آسٹریا نے ’’صلیبی پکار‘‘ پر لبیک کہتے ہوئے اپنے اختلافات پس پشت ڈال دئیے تھے۔ ان کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکا جائے۔ حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے 46 سالہ دورِ حکومت میں سلیمان کسی نہ کسی جنگ یا مہم میں مصروف رہے۔
سلیمان اعظم نے اپنی تخت نشینی کے بعد خیرالدین باربروسہ کو پورے عثمانی بحری بیڑے کا سپریم کمانڈر ایڈمرل یعنی امیرالبحر مقرر کیا۔
امیر البحر خیرالدین، شہنشاہ چارلس اور صلیبیوں پر قہر بن کر ٹوٹا۔ بیشتر عیسائی بادشاہوں کے فوجی بیڑے سمندر برد ہوگئے اور بے شمار نہروں، ساحلوں اور بندرگاہوں کو سلطنتِ عثمانیہ میں شامل کرلیا گیا۔ تجارتی راہداریوں اور سمندروں پر عثمانی خلافت کا راج مضبوط ہوگیا۔ مراکش، فیض، الجیریا، تیونس اور طرابلس (ٹریپولی) کے علاقے بھی عثمانیوں کے زیرنگیں آچکے تھے۔
خلیفہ بننے کے بعد سلیمان کی زندگی کا پہلا معرکہ فتح بلغراد تھی۔ ہنگری کے بادشاہ لوئی ثانی سلطان سلیم کے زمانے سے ہی عثمانی سلطنت کے لیے مشکلات کھڑی کررہا تھا۔ سلیمان نے خلیفہ بننے کے بعد شاہ ہنگری کے پاس اپنا سفیر بھیجا جس نے سلیمان کی جانب سے خراج کی ادائیگی کا مطالبہ شاہ ہنگری کو پہنچایا۔ شاہ ہنگری طاقت کے نشے میں مست تھا، اس نے عثمانی سلطنت کے سفیر کو قتل کروا دیا۔
سلیمان کو خبر ملی تو انہوں نے فوجی تیاری کا حکم دیا۔ ماہ رمضان المبارک میں یہ مہم سر کی گئی۔ 1521ء میں اسلامی فوج بلغراد پر قبضہ کرچکی تھی۔ سلیمان نے بلغراد کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچایا اور وہاں بڑے کلیسا کی صفائی کروائی اور نماز ادا کی، اور اسے مسجد میں تبدیل کردیا گیا۔ بلغراد جسے سرب زبان میں بوئیگراد یعنی سفید شہر کہا جاتا ہے، مسلمان سلطنت کا حصہ بن گیا۔
جزیرہ رہوڈس کا حاکم اپنی اچھی قسمت کے سبب عثمانیوں کے حملوں سے اب تک تو بچتا آیا تھا۔ یہ بحری قزاق عثمانی قافلوں کو راستے میں لوٹ لیا کرتے تھے۔ سلیمان قانونی نے اِس مرتبہ جزیرے پر مکمل تیاری کے ساتھ حملہ کیا۔ رہوڈس کے قلعے میں سینٹ جان کے نائٹس حملے سے بچنے کی تدبیریں نکالنے میں مصروف تھے۔ پاس کی رومن طاقتوں سے مدد مانگنے کے لیے سفراء کو بھیجا جارہا تھا۔ شہریوں کو صلیبوں کے ساتھ نائٹس کی کمان میں دیا جاچکا تھا کہ سلطان سلیمان اول قانونی نے 300 جنگی جہاز اور 400 باربرداری کے جہازوں کے ساتھ 4 رمضان بمطابق 28 جولائی کو عثمانی افواج ساحل پر اتار دیں اور 8 رمضان بمطابق یکم اگست کو رہوڈس کا محاصرہ شروع کیا۔ یہ محاصرہ 5 ماہ تک جاری رہا۔ بالآخر رہوڈس کے حاکم نے سلطان سلیمان کی شرائط پر ہتھیار ڈال دیئے۔ سلیمان نے جزیرہ رہوڈس کے نائٹس اور فوج کو 12 دن کی مہلت دی اور اعلیٰ ظرفی سے کام لیتے ہوئے انہیں اجازت دی کہ وہ اپنا سامان اور اسلحہ لے جاسکتے ہیں اور ضرورت پڑے تو عثمانی جہازوں کو بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ رہوڈس کے مسیحی باشندے یہاں سے نکل کر جزیرہ کریٹ چلے گئے۔
تیسرا بڑ ا حملہ (مجارستان) ہنگری پر ہوا۔ یہ یورپ کا وہ ملک تھا جس کے اطراف میں کوئی سمندر نہیں ہے اور اس کے اردگرد آسٹریا، سلواکیہ، یوکرائن، رومانیہ، کروشیا اور سلوانیہ واقع ہیں۔ یہ ملک مشہور دریا دریائے ڈینیوب کے دونوں کناروں پر واقع ہے۔ سلطان سلیمان 1526ء میں ایک لاکھ سپاہیوں کی فوج کے ساتھ روانہ ہوئے۔ اُس وقت 300 توپیں بھی فوج کے ساتھ تھیں۔ دارالحکومت پہنچنے سے پہلے پہلے ہی مہاچ کے مقام پر اسلامی افواج ہنگری کی فوجوں کے مدمقابل ہوئیں۔ مسلمان اس قدر جوش و جذبے سے لڑے کہ محض دو سے تین گھنٹوں میں جنگ کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوگیا اور شاہ لوئی نے بھاگنے میں عافیت جانی۔ مگر دریا میں ڈوب کر ہمیشہ کے لیے تاریخ کا حصہ بن گیا۔
سلیمان نے اب ہنگری کے دارالحکومت بوڈا پر فیصلہ کن حملے کا فیصلہ کیا۔ 10 ستمبر 1526ء کو دارالحکومت بوڈاپسٹ پر بھی مسلمانوں کا قبضہ مکمل ہوچکا تھا۔ شاہ لوئی بے اولاد تھا۔ خلیفہ سلیمان نے مقامی امراء کے مشورے سے کاؤنٹ زاپولیا کو وہاں کا حاکم مقرر کیا اور جزیہ مقرر کرنے کے بعد واپس چلے آئے۔ اس کے کچھ عرصے بعد شہنشاہ چارلس پنجم کے بھائی فرڈیننڈ نے ہنگری کا حکمران بننے کے خواب دیکھنے شروع کردیئے اور اپنے ان خوابوں کو حقیقت بنانے کی غرض سے اس نے ہنگری پر حملہ کیا اور کاؤنٹ زاپولیا کو شکست دے کر ہنگری پر قبضہ جما لیا۔ کاؤنٹ زاپولیا نے پولینڈ میں پناہ لے لی۔ پولینڈ پہنچ کر کاؤنٹ زاپولیا نے سلطان سے فریاد کی۔ فرڈیننڈ نے اس موقع پرسلطان سلیمان سے مطالبہ کیا کہ ہنگری کے جن شہروں پر مسلمانوں کا قبضہ ہوچکا تھا وہ بھی واپس اس کے حوالے کردئیے جائیں۔ سلیمان قانونی نے زاپولیا کی مدد کا فیصلہ کرلیا۔ 12 رمضان المبارک 935ھ بمطابق 20 مئی 1529ء کو سلطان ایک بڑی فوج لے کر بوڈا پہنچے۔ 6 روزہ محاصرے کے بعد معمولی جھڑپ کرکے قلعہ فتح کرلیا گیا۔
اس فتح کے بعد زاپولیا کو وہاں کا حاکم مقرر کیا۔ اب سلطان نے نیا محاذ تلاش کرلیا تھا۔ اِس بار سلطان نے آسٹریا کو قابو کرنے کا منصوبہ بنایا۔ چنانچہ 27 ستمبر 1529ء کو ویانا کا محاصرہ شروع ہوگیا۔ موسم شدید سرد تھا۔ رسد میں مشکلات کا سامنا تھا۔ مگر افواج محاذ پر موجود رہیں۔ بڑی توپیں جو ہنگری میں استعمال ہوئی تھیں، خراب موسم کے سبب ویانا نہیں پہنچ پا رہی تھیں۔ لہٰذا فیصلہ ہوا کہ محاصرہ اٹھا لیا جائے۔
اس محاصرے کے تین سال بعد سلطان سلیمان دوبارہ آسٹریا کی جانب نکلا اور گونز کا علاقہ فتح کیا۔ یہ فتح حاصل کرنے میں تین ماہ کا وقت صرف ہوا۔ اس کے بعد آسٹریا بھی مسلمانوں کے زیرنگین آگیا۔ سلطان نے ان کو بھی جزیہ دینے پر راضی کیا اور واپس قسطنطنیہ پہنچ گئے۔ اب سلطان کو اپنی افواج کو تیونس کی جانب بھیجنا پڑا۔ اس طرح کامیابیوں کا سفر جاری رہا اور 1534ء میں تیونس بھی عثمانی سلطنت کا حصہ بن گیا۔
ایران کی صفوی حکومتیں ہر دور میں ہی عثمانیوں کے لیے مسائل کھڑے کرتی رہتی تھیں، چنانچہ سلطان نے اب کی مرتبہ صفوی حکمرانوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اور اپنے وزیراعظم ابراہیم کو کمانڈ دے کر ایران روانہ کیا۔ 941ھ بمطابق جولائی 1534ء میں تبریز پر قبضہ کرلیا۔ ستمبر میں سلطان بذاتِ خود اس شہر میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوا۔ یہاں سے عثمانی افواج نے ہمدان کے راستے بغداد کا رخ کیا۔ سلطان کا قیام بغداد میں چار ماہ رہا۔ اس اثناء میں ایرانیوں نے اپنے علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرلیا تھا، اس لیے عثمانی افواج ایک بار پھر ایران کی جانب آنکلیں اور اِس مرتبہ آذربائیجان اور دیگر کئی علاقے فتح کرلیے گئے۔
ایران کے صفویوں کو شکست دینے کے بعد سلطان نے چند سالوں تک مختلف چھوٹی بڑی مہمات میں اپنی سپاہ کو مصروف رکھا۔ اس دوران ہنگری میں حاکم زاپولیا کا انتقال ہوگیا تھا اور فرڈیننڈ نے پھر پورے ہنگری پر قبضہ جمانا چاہا، سلطان کو یہ اطلاعات ملیں تو انہوں نے اگست 1541ء میں ہنگری کا رخ کیا۔ اس حوالے سے امیرالبحر خیر الدین کا ذکر ازحد ضروری ہے جنہوں نے بے پناہ حکمت اور بہادری سے اپنی سپاہ کو لڑایا۔ اس عہد کے بیشتر نامور مؤرخین اور محققین خیرالدین کی صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ خیرالدین کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ وہ طارق بن زیاد کے اختیار کردہ بحری راستے کے ذریعے جبرالٹر (جبل الطارق) پہنچ کر اس پر دوبارہ مسلمانوں کو قبضہ دلادیں۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل میں وہ عمر بھر سرگرم عمل رہے۔ بالآخر 20 اگست 1540ء کو وہ ایک ہزار ملاحوں اور دو ہزار سپاہیوں کے ہمراہ سولہ بحری جہازوں کے بیڑے کے ساتھ جبرالٹر (جبل الطارق) پر حملہ آور ہوئے۔ ان کے مدمقابل لاکھوں کی بحری فوج، ہزارہا بحری جہاز اور سسلی کا مشہور تجربہ کار ایڈمرل ڈان برنارڈ ڈیو مینڈوزا موجود تھا۔ دس یوم کی خوں ریز جنگ کے بعد خیرالدین باربروسہ نے جبرالٹر کے ساحلوں پر اپنے قدم جمالیے۔ فرانس نے خیرالدین کی بحری مدد کے سبب اسپین کی بندرگاہ حاصل کرنے کے بعد طولون کی بندرگاہ عثمانیوں کو تحفے کے طور پر پیش کردی۔
بحیرۂ عرب، بحیرۂ روم، بحیرۂ احمر سے لے کر جبل الطارق اور ہندوستان کے مغربی ساحل تک صرف خیرالدین کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ ٹرانسلوانیا، کودالپور، ہیکلوس، فونفکیرشن پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ یہاں مستقل طور پر عثمانی دستے متعین کردیئے گئے۔ ہنگری کو سنجقوں میں تقسیم کردیا گیا اور یہاں بھی عثمانی عامل،گورنر مقررکردیے گئے۔
اس محاذ کو پابند کردینے کے بعد سلطان نے دوبارہ ایران اور دیگر علاقوں کا قلع قمع کرنے کا سوچا۔ پھر سلطان کی نیام سے نکلی تلوار نیام میں واپس نہیں گئی۔ سلطان نے ایران میں اندر تک حملے کیے۔ انہوں نے بغداد، موصل، یریوان، آرمینیا اور بین النہرین (میسوپوٹیمیا) کو اپنی مملکت میں شامل کرلیا۔ ادھر عدن پر قبضہ کیا اور بحیرہ روم میں الجزائر، طرابلس اور بحیرہ ایجیئن کے متعدد جزیرے فتح ہوچکے تھے۔ ایشیا اور یورپ کی کوئی بھی مملکت بری اور بحری لحاظ سے عثمانی سلطنت کی برابری نہیں کررہی تھی۔ بلا شرکت غیرے عثمانیوں کو سمندروں اور زمینوں پر حکمرانی کا عروج حاصل ہوچکا تھا۔ سلطان سلیمان کا جذبۂ جہاد مرتے دم تک قائم رہا۔ یہاں تک کہ جنگ کے دوران ہی انہوں نے داعئ اجل کو لبیک کہا۔ 1565ء میں آسٹریا سے جنگ پھر شروع ہوگئی جس میں عیسائیوں نے کچھ کامیابیاں حاصل کیں۔ سلطان اس زمانے میں بیمار تھے، انہیں گٹھیا کی شکایت تھی، اس کے باوجود افواج کی مردانہ وار قیادت کے لیے نکل آئے۔ آسٹریا کے قلعہ سگتوار کا محاصرہ 2 اگست 1566ء کو شروع ہوا اور 8 ستمبر تک جاری رہا اور قلعہ فتح ہوگیا، اور اس وقت جب لشکرِ اسلام کامیابی کے پھریرے لہراتا ہوا قلعے میں داخل ہورہا تھا، سپاہی اس اندوہناک حقیقت سے بے خبر تھے کہ ان کا محبوب سلطان اب ان کے درمیان نہیں بلکہ وہ 9 اور 10 صفر بمطابق 5 اور 6 ستمبر کی درمیانی شب ہی انہیں چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ہے۔ سلطان کی وفات کی خبر وزیراعظم صوقولی پاشا نے دانستہ مخفی رکھی اور فتح کے بعد اسے عام کیا۔ فتح کے شادیانے بند ہوگئے اور فضا سوگوار ہوگئی۔ سلطان کی میت واپس قسطنطنیہ لائی گئی جہاں خود ان کی تعمیر کردہ مسجد سلیمانیہ میں انہیں سپردِخاک کیا گیا۔
انہوں نے ذاتی طور پر 13 بڑی جنگوں میں شرکت کی جن میں سے تین ایشیا میں اور 10 یورپ میں لڑی گئیں اور اس طرح سلطنت عثمانیہ کی حدود میں 13 مرتبہ توسیع کی۔ (جاری ہے )