ڈاکٹر ضیاء الحسن

162

عمران شمشاد کی شاعری کو پڑھتے ہوئے ایک بات شدت سے اپنا احساس دلاتی ہے کہ یہ شاعری اپنے گرد و پیش میں ہونے والی شاعری سے مختلف ہے۔ مختلف ہونا بذاتہٖ ایک ایسی خوبی ہے جو متوجہ کرتی ہے کیوں کہ اپنے عہد کی شاعری جیسی شاعری کرنا یا روایت کے متعین دائرے میں رہ کر شعر کہنا آسان بھی ہوتا ہے اور اس سے فوری مقبولیت بھی حاصل ہو سکتی ہے لیکن ایسی شاعری مستقبل کے امکانات سے تہی ہوتی ہے۔ نئی شاعری میں ناکامی کے امکانات بھی اتنے ہی ہوتے ہیں جتنے کامیابی کے۔ نیا شاعر سب سے پہلے کامیابی اور ناکامی، مقبولیت اور نامقبولیت گہرائی اور سطحیت جیسے تصورات سے خود کو رہا کرتا ہے اور محض تخلیقی تجربے کی بازآفرینی پر اپنی توجہ مرتکز کرتا ہے۔ نیا شاعر اپنے فطری امکانات کی جستجو میں بے محابا ہوتا ہے اور انھیں بروئے کار لانے کے لیے ہر الزام اٹھانے کے لیے تیار رہتا ہے۔ اس قوت کے بغیر بس وہی شاعری کی جا سکتی ہے جو اپنے عہد کے تصورات کے مطابق درست شاعری ہوتی ہے۔ نیا شاعر درست و نادرست اور روایت و جدت کے تصورات سے بھی بے پروا ہوتا ہے۔ اس کا بس ایک ہی مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی اور شاعری کو جیسا دیکھتا اور محسوس کرتا ہے، ویسے ہی لگی لپٹی رکھے بغیر پیش بھی کرنا چاہتا ہے۔ اس کا سارا اسلوب، موضوعات اور ہیئتیں اسی مزاج کے اندر سے ظہور کرتی ہیں۔
عمران شمشاد اکیسویں صدی کے شاعر ہیں یا یہ کہیں کہ وہ مابعد ’’گیارہ ستمبر دنیا‘‘ کے شاعر ہیں۔ گیارہ ستمبر وہ تاریخ ہے جہاں سے دنیا اپنی تاریخ کے ایک نئے دور میں داخل ہوئی جس میں سرمایہ داری روڈ رولر پورے وزن اور پوری قوت کے ساتھ پرانی دنیا، انسان اور انسانی قدروں کو کچلتا چلا جا رہا ہے۔ پوری دنیا ایک عالمی منڈی میں تبدیل ہو گئی ہے جس میں ٹشوپیپر سے انسان تک، ہر شے برائے خرید و فروخت ہے۔ پورا انسانی معاشرہ ایک مہیب مشین میں تبدیل ہو گیا ہے جس میں انسان کی حیثیت اس کے کَل پرزوں سے زیادہ نہیں رہی ہے۔ یہ مشین مسلسل چل رہی ہے اور ہر پرزہ اپنا کام کرنے پر مجبور ہے۔ جو پرزہ ٹھیک کام نہیں کرتا، اس کی جگہ نیا پرزہ لگا دیا جاتا ہے اور پرانے پرزے کو اسٹیل مِل کی بھٹیوں میں ڈال دیا جاتا ہے اور نئے پرزے بنا لیے جاتے ہیں۔ بظاہر یہ مشین خودکار لگتی ہے لیکن اصل میں اس کو چلانے والے چند روبوٹ نما انسان ہیں جو ہر انسانی قدر اور خصوصیت سے تہی ہیں اور ڈالر، یورو، پاؤنڈ نام کے کاغذ کو اشرف المخلوقات بنانے میں تن دہی سے جُتے ہوئے ہیں۔ وہ خود بھی انسان نہیں رہے بلکہ ان کاغذوں کے غلام بن کر رہ گئے ہیں لیکن اپنے پاگل پن میں انھوں نے انسان کے سارے امکانات مسدود کر دیے ہیں۔ بظاہر نظر آنے والی چکاچوند اور ترقی وہ سراب ہے جس نے انسانی حواس کو کند کر دیا ہے۔ صنعتی پھیلاؤ نے شہروں کو اس قدر وسیع کر دیا ہے کہ انسان کا انسان سے تعلق ختم ہو گیا ہے۔ انسان کو وہ بے حیثیت وجود بنا دیا ہے جو روز بلاناغہ کسی بس کے نیچے، کسی پستول کی گولی سے، کسی بیماری کے ہاتھوں، کسی مفلسی کے پنجے میں سسکتی ہوئی موت کا شکار ہو رہا ہے۔ عمران شمشاد نے اپنی نظموں اور غزلوں میں اس دنیا کی ایک تصویر بنانے کی سعی کی ہے۔ ان کے سارے موضوعات، لفظ، استعارے اور اسلوب اسی دنیا سے پیدا ہوئے ہیں۔
اردو کی شعری روایت کے تناظر میں عمران شمشاد کا اسلوبِ شعر پہلی نظر میں عامیانہ محسوس ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس شاعری کو پڑھنے کی تہذیب وہ نہیں ہے جس سے ہم عام طور پر ہونے والی شاعری کو پڑھتے ہیں بلکہ یہ شاعری ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم اسے کسی اور طرح سے پڑھیں اور اس کا تجزیہ بھی اور طرح سے کریں۔ چلیے ان کی نظم ’’سودی بیگم‘‘ سے بات آغاز کرتے ہیں۔ نظم دو کرداروں سودی بیگم اور رضیہ پر مشتمل ہے۔ سود بیگم ایک تمثیلی کردار ہے اور تمثیل بھی بہت سادہ ہے جو اس سودی نظام سے پیدا ہوئی ہے جس نے پوری دنیا کے انسانوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ یوں اس تمثیل کی تشکیل میں بہت گہرائی بھی نظر نہیں آتی۔ گہرائی پیدا کرنا عمران کا مقصود بھی نہیں ہے کیوں کہ اس کے ذہن میں اس نظم کا قاری صرف اردو شاعری کا قاری تربیت یافتہ نہیں ہے۔ یہ نظم تبلیغی بھی نہیں ہے کیوں کہ تبلیغ کے براہِ راست خطابیے سے خالی ہے۔ یہ نظم قاری کے طور پر تربیت یافتہ قاری کو رد بھی نہیں کرتی۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران نے یہ نظم قاری کے تصور کو رد کرکے صرف اپنے لیے تخلیق کی ہے۔ اسے اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ یہ نظم پڑھی جاتی ہے یا نہیں پڑھی جاتی، قبول کی جاتی ہے یا نہیں کی جاتی، ادبی حلقوں میں اس کے بارے میں کیا رائے پیدا ہوگی۔ اس کا بس ایک ہی مسئلہ ہے کہ وہ اس نظام زندگی کے بارے میں اپنے اندر پیدا ہونے والے غصے، تحقیر، تمسخر اور استہزا کا اظہار کرکے اس تکلیف سے نکلنا چاہتا ہے یا سارے معاشرے کو اس تکلیف میں شریک کرنا چاہتا ہے جس نے براہِ راست شکار نہ ہونے کے باوجود اس کے وجود کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ یہ غصہ، یہ طنز، یہ استہزا سودی بیگم اور رضیہ سے مل کر بننے والے پورے معاشرے پر ہے کیوں کہ یہ معاشرہ انہی دو کرداروں پر ہی مشتمل ہے۔ رضیہ ایک بہت عامیانہ نام ہے اور اس کے پس منظر میں وہ پاپولر گانا بھی ہے جس نے اس نام کو عمومیت کے ساتھ علامتی معنویت بھی دی ہے۔ رضیہ ایک ایسا کردار ہے جو مقامی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک سود میں جکڑا ہوا انسان ہے۔ یوں یہ ننانوے فی صد انسانوں کا نمایندہ کردار ہے۔ پتہ نہیں اس کردار کے لیے رضیہ کا نام عمران نے شعور سے تجویز کیا ہے یا لاشعوری طور پر نظم کی تخلیق کے دوران میں یہ خود بخود آیا ہے لیکن اس نام کے ذریعے انھوں نے سودی نظام کی محکوم و غلام انسانیت کے لیے جس تحقیر اور استہزا کا اظہار کیا ہے، یہ اس کی سزاوار ہے۔ اگر گنتی میں آسکنے والے چند انسان سات ارب انسانو ں کو رضیہ بن جانے پر مجبور کر سکتے ہیں تو اس کردار کو رضیہ ہی کہنا چاہیے، کچھ اور نہیں۔ یوں دیکھیں تو پہلی نظر میں تربیت یافتہ قاری کو اس نظم کے اسلوب میں جو عامیانہ پن نظر آتا ہے، وہ موجودہ زندگی کے عامیانہ پن اور معمولی پن کو پیش کرنے کے لیے بہترین ہے۔ اس نظم کو فلسفیانہ یا روایتی شعری اسلوب میں بھی پیش کیا جا سکتا ہے اور اس صورت میں ایک اچھی نظم تخلیق کی جا سکتی ہے جس میں موجودہ سیاسی و اقتصادی نظام میں انسانی حیثیت کو پیش کیا گیا ہو لیکن عمران نے نظم کے لب و لہجے سے جس طرح پوری صورت حال کو بیان کیا ہے، وہ اس کے لیے بہترین ہے۔ عمران شمشاد نے اپنے اسی اسلوب سے مالیاتی کارپوریشنوں کی بنائی ہوئی موجودہ غیرانسانی دنیا کی مختلف تفصیلات کو گرفت میں لیا ہے، اس طرح کی شاعری کو روایتی جمالیاتی تصور سے سمجھنا مشکل ہے کیوں کہ یہ اپنی نئی جمالیاتی فضا تعمیر کرتی ہے۔ اب اس مجموعے کی طویل نظم ’’سڑک‘‘ کی مختلف لائنیں دیکھیے اور محسوس کیجیے کہ اس میں انسان کس طرح ’’کسی‘‘ میں تبدیل ہوا ہے۔ اس بے نام انسان کو جب وہ صغیر، کبیر، غلام، نظام، شریف، نظیر، نفیس، رحیم، شاہد، وقار، فراز، سلیم، ضمیر، نواب، ضیا، گلاب، عظیم، کلیم، فہیم، وزیر، ثنا، ندا، حنا، عقیلہ خالہ، یا زبیدہ کا نام دیتے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ نام کتنے بے کس اور بے نام ہیں۔
کسی کی ہاتھی نما پرا ڈو
سڑک سے ایسے گزر رہی ہے
سوائے اس کے کہیں بھی جیسے کوئی نہیں ہے
کسی کی مونچھیں جھکی ہوئی ہیں
کسی کی باچھیں کھِلی ہوئی ہیں
وہیں پہ شاہد سیاہ چشمہ لگائے خود کو چھپا رہا ہے
نیوز چینل کی چھوٹی گاڑی بڑی خبر کی تلاش میں ہے
کسی کو اے سی خریدنا ہے
کسی کو پی سی خرید نا ہے
عجیب عجلت، عجیب وحشت، عجیب غفلت کا ماجرا ہے
کہوں میں کس سے یہ کیسی خلقت کا ماجرا ہے
عمران عمران شمشاد نے ایک سڑک سے گزرتے ہوئے مختلف لوگوں کے ذریعے اس زندگی کی بے معنویت کو بڑی مہارت سے ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہروں کی کسی بھی معروف سڑک پر ایک دن گزار کر یہ نظارہ دیکھا جا سکتا ہے۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ اس نے اس منتشر اور عجلت کا شکار زندگی کو ایک دھاگے میں پرو کر نظم بنا دیا ہے اور اس نظم میں موجود زندگی کی لایعنیت کو آشکار کر دیا ہے۔ یہ عمران شمشاد کا خاص اسلوب ہے جس کا اظہار نظم کے ساتھ غزل میں بھی اسی ہنرمندی سے ہوا ہے۔ اس نے اسما کو جس طرح زندگی کی عمومیت اور بے معنویت کی علامت کے طور پر برتا ہے، ان کے علاوہ کم کم ہی نظر آتا ہے۔ حارث خلیق کی بعض نظموں میں اس اسلوب سے کام لیا گیا ہے یا خال خال نظموں اور شعروں میں اس کی جھلک نظر آتی ہے لیکن عمران شمشاد نے اسے بہرطور سلیقے سے برتا ہے۔ ان کی ایک غزل کے چند شعر دیکھیے:
دم دم کھینچتا عابد اپنا دم دے بیٹھا
طاہر اب بھی تنہا لمحہ ڈھونڈ رہا ہے
ارشد ، ہیرو، اکو دادا، طاہر مکھن
ان تینوں کو جھومتا لالا ڈھونڈ رہا ہے
مجھو ، میرو ، کھاکی، نوری، اللہ ڈینو
بھاگ رہے ہیں ، انھیں شکیلا ڈھونڈ رہا ہے
اس طویل غزل کے صرف تین شعر میں نے یہاں نقل کہے ہیں جو اپنے بیانے میں غزل بھی ہے اور نظم بھی، غزل ہو یا نظم عمران نے اس بیانیے کو ایک کاسمو پولیٹن شہر کی زندگی بیان کرنے کے لیے خوبی سے برتا ہے۔ صرف یہ بیانیہ ہی نہیں، عمران شمشاد کے اس مجموعے کا مرکزی نقطہ کاسموپولیٹنائزیشن اور گلوبلائزشین کے اس دور میں لایعنی ہو جانے والی زندگی اور حقیر ہو جانے والے انسان کا نوحہ ہے۔ درج بالا تین اشعار جس غزل سے لیے گئے ہیں، اس کے ہر شعر میں یہی لایعنی زندگی اور یہی حقیر انسان نظر آتے ہیں جو ان تین اشعار میں قاری کو محسوس ہوئے ہوں گے۔ انھوں نے موضوع ہی نہیں اسلوب کو بھی زندگی سے ہم آہنگ کر دیا ہے۔ عین ممکن ہے روایتی غزل کے اسیرا ذہان ان کی اس طرح کی غزلوں پر ناک بھوں چڑھائیں اور اسے ناشاعری قرار دیں لیکن وہ جسے شاعری سمجھتے ہیں، اب نہ اس میں کوئی تازگی باقی رہی ہے اور نہ کوئی امکان، خصوصاً ہمارے عہد کی غزل زندگی سے یک سر کٹی ہوئی محسوس ہوتی ہے ور جہاں کہیں وہ زندگی سے ملحق محسوس ہوتی ہے، وہیں اس میں کوئی کشش بھی محسوس ہوتی ہے۔ یہاں میں ترقی پسند شاعری کی بات نہیں کر رہا بلکہ دل خرابے کو دلی شہر بنانے کی بات کر رہا ہوں۔ شاعر جہاں فلسفیانہ موضوعات اور زندگی کے حسن کا دریافت کنندہ ہوتا ہے، وہاں زندگی کی بدصورتیوں کو رد بھی کرتا ہے۔ آج انسان جس دور سے گزر رہا ہے، وہاں اس کا انسان ہونا بھی معرضِ سوال میں آ گیا ہے۔ ایسے میں شاعر محض عشق کے ترانے گائے یا فلسفہ بھگارے تو بھلا نہیں لگتا۔ اسے زندگی کا نبض شناس بھی ہونا ہی چاہیے۔ یہ نہیں کہ عمران شمشاد نے ایسی ہی غزلیں کہی ہیں۔ یہ تو پورے مجموعے میں دوچار چھے ہی ہوں گی لیکن اس شاعری کے اثرات ان کی پوری شاعری پر مرتسم ہوئے ہیں اور اس نے ان کے اسلوب کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اب ان کی اس غزل کے چند شعر دیکھیے، جس کی توقع عصری زندگی اور دنیا سے بے خبر، علم سے متنفر اور غور و فکر سے عاری، غزل کی ساخت میں پھنسی ہوئی غزل گو شاعروں کی اکثریت سے کی ہی نہیں جا سکتی:
بات یہ ہے کہ جیت اس کی ہے
جس نے تبدیل کر دیا نقشہ
اک طرف چائنا کھڑا ہوا ہے
دیو ہیکل سا اور بے کل سا
دوسری سمت روس کے جاسوس
سونگھتے پھر رہے ہیں امریکہ
یہ فری میسنوں کی دنیا ہے
اس میں کیا کام تیرے جیسوں کا
ہیں مسلمان مثل دسترخوان
اور دنیا کو آ رہا ہے مزہ