ڈاکٹر محمد اقبال خلیل

124

13130الآخر افغانستان میں ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت اور انجینئر گلبدین حکمت یار کے درمیان معاہدہ طے پاگیا۔ 6سال طویل مذاکراتی عمل کے بعد طے پانے والا معاہدہ 22 نکات پر مشتمل ہے۔ مبصرین اس امن معاہدے کو افغان حکومت کی بہت بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ افغان جہاد دور کی کرشماتی شخصیت گلبدین حکمت یار جنہوں نے دورِ طالب علمی ہی سے کمیونسٹ تسلط کے خلاف جدوجہد کاآغاز کردیا تھا ایک زمانے میں مجاہدین کی سب سے بڑی تنظیم کے سربراہ تھے ۔ ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن کی بڑی خواہش تھی کہ وہ وائٹ ہاؤس آکر ان سے ملیں اور ان کے ساتھ تصویر کھنچوائیں، لیکن حکمت یار نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا اور پھر صدر ریگن کو یہ تصویر جمعیت اسلامی کے سربراہ استاد برہان الدین ربانی کے ساتھ کھنچوانی پڑی۔ اب وہی حزبِ اسلامی جو افغانستان کے طول و عرض پر پھیلی ہوئی تھی طالبان سے مقابلے کی تاب نہ لاکر سکڑتی چلی گئی اور بالآخر میدانِ جنگ سے دست بردار ہوکر افغان حکومت کے ساتھ امن معاہدہ کرنے پر مجبور ہوگئی۔ اچھی بات ہے، کہ افغانستان کے عوام کو جنگ کے بجائے امن کی ضرورت ہے ۔ ہم چاہے حکمت یار کو کتنے طعنے دیں لیکن یہ قدم جرأت مندانہ ہے جس کی تعریف کرنی چاہیے۔ جنگ کی بات کرنا پختون قوم کا شیوہ ہے۔ امن اور صلح کی بات کرنا ان کی سرشت کے خلاف ہے، لیکن بہرصورت اس کی طرف آنا پڑتا ہے۔
افغانستان کئی دہائیوں سے جنگ کا شکار ہے۔ 1976ء میں ظاہر شاہ کی بادشاہت کے خاتمے اور سردار داؤد کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے افغانستان میں جنگ و جدل کا دور شروع ہوا۔ نور محمد ترہ کئی، حفیظ اللہ امین، ببرک کارمل، ملامحمدعمر، حامد کرزئی اور اب ڈاکٹر اشرف غنی۔۔۔ یہ تمام ادوار جنگوں سے بھرپور رہے ہیں۔ خود حکمت یار بھی کچھ عرصے وزیراعظم رہے۔ روسی جارحیت نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ لاکھوں افغان بے سرو سامانی کی حالت میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے ۔ روسی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ کمیونسٹ نظام افغانستان کے لیے ناگزیر ہے، کوئی اس کو نہیں بدل سکتا۔ لیکن پھر دنیا نے ان سرخ افواج کی رخصتی کا منظر بھی دیکھا۔ افغان مجاہدین کی قربانیوں سے کمیونسٹ نظام زمین بوس ہوا، مشرقی یورپ آزاد ہوا، دیوارِ برلن گر گئی، جرمنی یکجا ہوگیا، لیکن اس کا ثمر خود افغانستان کو نہ مل سکا اور ان کے باہمی اختلافات نے افغانستان میں تباہی و بربادی کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر طالبان آگئے۔ وقتی طور پر ملک میں امن قائم ہوا، لیکن نائن الیون (9/11)کے واقعہ نے جہاں دنیا کا نقشہ تبدیل کیا وہاں افغانستان کے لیے ایک اور تباہی و بربادی کا نسخہ تیار ہوا۔ امریکی بمباری اور ڈیزی کٹر بموں نے اس ملک کا ایسا حشر نشر کیا کہ کئی نسلیں اس کا شکار ہوئیں۔ پھر اسی تباہ شدہ ملک میں جمہوری حکومت کا تانا بانا بُنا گیا اور حامد کرزئی کو برسراقتدار لایا گیا، لیکن افغان ملت کی مزاحمت جاری رہی۔ اکثر جگہ تحریک طالبان جس کی حکومت کو ختم کیا گیا، مقابلہ کرتی رہی، اور بعض جگہ حزبِ اسلامی کے گوریلے بھی نبرد آزما تھے۔ اب ان سے بھی زیادہ خطرناک تنظیم داعش نے بھی افغانستان میں قدم رکھے ہیں اور مستقبل مخدوش نظر آرہا تھا۔ اس پورے منظر میں حکومت اور حزب اسلامی کا معاہدہ روشنی کی ایک کرن، بارش کے چند قطروں اور خوشگوار ہوا کے جھونکے کی مانند ہوا جس پر افغان عوام نے بجا طور پر خوشی کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت بھی مختلف الخیال افراد اور گروہوں پر مشتمل ہے۔ اس میں سابقہ کمیونسٹ، خلقی، پرچمی، شعلی، ملتی، پختون قوم پرست، تاجک، ازبک، ہزارہ سبھی شامل ہیں، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ سب نے اس معاہدے کا خیرمقدم کیا اور اس کی حمایت کا اعلان کیا۔ ڈاکٹر اشرف غنی کے اتحادی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے بارے میں کہا گیا کہ وہ اس معاہدے سے ناراض ہیں اور نہیں چاہتے کہ حکمت یار کابل میں قدم رکھیں، لیکن انہوں نے خود ذاتی طور پر اس افواہ کی تردید کی اور واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ: ’’ہم اس معاہدے کے پوری طرح حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ کامیاب ہو۔ افغانستان میں امن قائم کرنا اور عوام کو ترقی و سلامتی سے ہمکنار کرنا اس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ہم تو طالبان کے ساتھ بھی مذاکرات اور امن معاہدہ چاہتے ہیں‘‘۔ سابقہ جہادی تنظیموں نے بھی اس معاہدے کے لیے پسندیدگی کا اظہار کیا۔ استاد عبدالرب رسول سیاف سے بھی اس قسم کی بات منسوب کی گئی، لیکن انہوں نے بھی اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو کابل میں امن کی خاطر غیر ملکیوں کی موجودگی برداشت کررہے ہیں، حکمت یار تو ہمارے بھائی ہیں، ان پر بھلاکون اعتراض کرسکتا ہے!
اس معاہدے کے اعلان کا سب سے بڑا فائدہ تو حزبِ اسلامی کو ہوا جس کے اس عرصے میں کئی دھڑے بن چکے تھے۔ ارغندیوال گروپ کی بڑی جہادی شخصیت مولوی سرفراز نے اس معاہدے کا پُرجوش خیرمقدم کیا اور حکمت یار کو اپنا قائد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان کی کابل آمد کا شدت سے انتظار ہے۔ ارغندیوال گروپ نے گزشتہ انتخابات میں قومی یکجہتی کی خاطر شمالی اتحاد کے امیدوار ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا ساتھ دیا تھا اور اب بھی حزب کا ایک رہنما انجینئر محمد خان حکومت میں ان کا معاون ہے۔ بعض سول سوسائٹیز، این جی اوز کے افراد اور خواتین نے کابل میں اس معاہدے کے خلاف مظاہر ے بھی کیے ہیں اور انجینئر گلبدین حکمت یار کو افغان عوام کا قاتل قرار دیا ہے۔ لیکن یہ امر طے شدہ ہے کہ چند افراد کی مخالفت کے مقابلے میں عوام کی ایک بھاری اکثریت اس اقدام کے حق میں ہے اور اس پر مسرت کا اظہار کررہی ہے ۔ پختون قوم پرست عناصر تک جو ایک طویل عرصے سے حکمت یار کے مخالف رہے ہیں، قومی وحدت اور تعمیر و ترقی کی خاطر ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں، کیونکہ ان کے خیال میں موجودہ کشمکش میں زیادہ نقصان پختون آبادی کا ہی ہورہا ہے اور وہاں تعلیم و صحت کی خدمات کی فراہمی اور تعمیر و ترقی کے منصوبے ملک کے بقیہ حصوں کے مقابلے میں بہت سست رفتار اور کمزور ہیں۔
جن مذاکرات کے اختتام پر یہ معاہدہ ہوا ہے اس کا سلسلہ حامد کرزئی کے دور سے شروع ہوا تھا، لیکن ان کے دور میں ایسا ہونا ممکن نہ تھا، کیونکہ کرزئی حکومت کسی رسمی معاہدے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھی۔ وہ طالبان اور حزبِ اسلامی دونوں کے ساتھ بات چیت تو کرنا چاہتی تھی لیکن کسی مصالحت یا ڈیل کی قائل نہ تھی، البتہ ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر معاہدہ کرنے کے لیے تیار تھی، یہی وجہ ہے کہ اس سال مارچ کے مہینے سے کابل میں باقاعدہ رسمی مذاکرات کا سلسلہ شروع کردیا گیا اور کابل حکومت کی دلچسپی اور سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے حزبِ اسلامی نے اپنا سب سے دیرینہ مطالبہ غیر ملکی افواج کے حتمی اخراج میں ترمیم کرتے ہوئے اس کو معاہدے کی شرائط میں رکھنے کے بجائے، معاہدے کا ایک مقصد اورنصب العین قرار دیا۔ مئی 2016ء میں بالآخر ایک ڈرافٹ پر اتفاق کرلیا گیا جو بڑی عرق ریزی سے قانونی ماہرین کی مدد سے حزبِ اسلامی کے نمائندے کریم آمین اور حکومت کے نمائندے پیر سید احمد گیلانی نے تیار کیا اور دونوں طرف کے قائدین کی خدمت میں پیش کردیا۔
یاد رہے کہ پیر گیلانی بھی روس کے خلاف جہاد میں اپنے دھڑے کے سربراہ تھے اور اس طرح گلبدین حکمت یار کے ہم رکاب رہے تھے۔ اِس سال جب طالبان کے سربراہ ملا منصور کو ڈرون حملے میں پاکستان آتے ہوئے ہدف بنایا گیا تو کچھ عرصے کے لیے مذاکراتی عمل رک سا گیا اور یہ خطرہ پیدا ہوا کہ شاید معاہدہ عملی طور پر نافذ نہ ہوسکے۔ لیکن جلد ہی یہ عمل دوبارہ شروع ہوا اور بالآخر 22 ستمبر کو کابل میں ایک تقریب میں ابتدائی مسودے پر دستخط ہوئے، جس میں حزبِ اسلامی کے نمائندے اور حکومتی عہدیداران شریک ہوئے۔ اس کے بعد معاہدے کا حتمی مسودہ انجینئر حکمت یار کے پاس دستخط کے لیے بھیجا گیا جو افغانستان میں کسی خفیہ مقام پر مقیم ہیں، اور بالآخر 29 ستمبر کو ایک شاندار تقریب میں جو کابل کے صدارتی محل ارک میں منعقد ہوئی، صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے معاہدے پر دستخط کردیے ۔
اس تقریب سے انجینئر گلبدین حکمت یار نے ویڈیو لنک کے ذریعے 36 منٹ طویل تقریر کی اور اس امن معاہدے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اس پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا، البتہ انہوں نے اپنے سابقہ مخالفین کے لیے سخت الفاظ استعمال کیے جنہوں نے غیر ملکی افواج کا ساتھ دیتے ہوئے ان کے لیے افغانستان پر قابض ہونے کے لیے راستہ ہموار کیا تھا۔ ان کا اشارہ واضح طور پر شمالی اتحاد کی طرف تھا۔
انہوں نے طالبان پر بھی تنقید کرتے ہوئے ان کو مشورہ دیا کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں اور امن و سلامتی کا راستہ اپنائیں۔ انہوں نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ سیاسی طور پر امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انہوں نے حزبِ اسلامی کا پرانا مؤقف دہراتے ہوئے ملک میں نمائندہ جمہوری حکومت کے قیام کی اہمیت کا اظہار کیا اور جنگ کے خاتمے کی نوید سنائی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہمارا معاہدہ خالصتاً افغانستان کے اندر مذاکرات کا نتیجہ ہے اور اس میں کوئی غیر ملکی عامل شامل نہیں ہے۔
(بقیہ اگلے صفحے پر)