اعجاز فاطمہ صدیقی

109

صابرہ بیگم عشاء کی نماز پڑھ کر سونے کی کوشش میں مصروف تھیں لیکن نیند ان سے کوسوں دور تھی۔ اپنے چہیتے بیٹے کی شادی کرنے کے بعد انہیں اس دنیا کے رشتوں کے بودے پَن کا احساس بہ خوبی ہوگیا تھا۔
نیند کی دیوی ان سے روٹھی ہوئی تھی اور سوچوں کے تانے بانے ان کے گرد الجھے ہوئے تھے۔
صابرہ بیگم کو اپنی جوانی کا زمانہ یاد آیا۔ اس زمانے میں دو بچوں کا نعرہ اتنی شدومد کے ساتھ نہ گونجا تھا۔ آٹھ آٹھ، دس دس بچوں کی فوج کا زمانہ تھا، لیکن قدرت نے انہیں صرف دو بچوں سے نواز کر ایک طرف تو فیملی پلاننگ والوں کو خوش کردیا، دوسری طرف بیٹا اور بیٹی دے کر ان کی فیملی کو مکمل کردیا۔ کتنے نصیب کی بات تھی یہ، اس پر وہ جتنا بھی شکر کرتیں کم تھا۔
قناعت کا دور تھا، حرص و ہوس سے دور، اپنی جنت میں مگن، محنت و محبت سے بچوں کی نگہداشت کرتی صابرہ بیگم تنگی و ترشی اور تکلیف و پریشانی میں بھی ’’صابرہ‘‘ ہی ثابت ہوئیں اور بچوں کی تعلیم و تربیت سے کبھی غافل نہ ہوئیں۔ شوہر سرکاری ملازم، حد درجہ محنتی، امانت دار اور فرض شناس۔۔۔ دفتر جانے میں ایک منٹ کی دیر نہ ہو اور واپسی کا کوئی وقت مقرر نہیں۔۔۔ یہ ان کا اصول تھا۔ لہٰذا جوانی ہی سے گھن چکر بنی رہیں، اس پر بوڑھی و بیمار ساس کی خدمت اور دو نندوں کے ناز، چاؤ، چونچلے اٹھا کر اچھا سا رشتہ دیکھ کر انہیں عزت سے رخصت کرنا صابرہ بیگم کا ہی حوصلہ تھا۔
ان کے اپنے بچوں نے میٹرک کرنے کے بعد کالج میں قدم رکھا تو وہ اپنی بیٹی کی شادی کے فرض سے سبکدوش ہوگئیں اور ان کے شوہر زندگی سے۔
بہرحال زندگی کا کام تو گزرنا ہے، سو گزرنے لگی۔ انہوں نے نہایت سلیقے سے شوہر کے ملے ہوئے پیسے کا استعمال کیا، گھر تو ڈبل اسٹوری بنا ہوا تھا ہی، اوپر کا پورشن کرائے پر چڑھاکر اور شوہر کی پنشن سے نہایت آسانی سے گزر اوقات کرنے لگیں۔
ان کا لاڈلا بیٹا احمر نہایت لائق و ذہین نکلا۔ محنت کے بل بوتے پر اسے انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ اب احمر کی تمام توجہ پڑھائی پر اور صابرہ بیگم کی تمام توجہ احمر پر مرکوز ہوگئی۔
احمر کا ہر کام وہ اپنے ہاتھ سے کرتیں۔ پراٹھے، انڈے یا حلوہ پوری کا ناشتا کرواکر یونیورسٹی بھجواتیں۔ کپڑے استری کرتیں، گھر کی صفائی بھی خود ہی کرتیں، کپڑے بھی خود ہی دھوتیں۔ احمر کی پڑھائی ختم ہونے تک وہ کسی خرچے کی متحمل نہیں ہوسکتی تھیں۔
احمر پر فدا اور جاں نثاری کی تو انہوں نے حد ہی کردی۔ اکثر نمازیں اس کی فرمائشوں اور ناز برداریوں کی نذر ہوجاتیں۔ سخت گرمی میں پسینے سے شرابور اس کی پسند کے میٹھے بناتیں، اصرار سے کھلاتیں۔ کھا پی کر احمر اپنے کمرے میں پڑھنے چلا جاتا، کبھی خیال ہی نہ آیا کہ بند باورچی خانے میں امی نے کس طرح یہ سب پکایا ہوگا۔ پرانے زمانے کا گھر تھا جس میں کھلا کھلا امریکن کچن نہ تھا۔ گھٹا گھٹا باورچی خانہ تھا جہاں وہ سارا دن اپنی جان کھپاتی تھیں اور رات کو اس قدر بے دم ہوجاتیں کہ نماز تو یاد ہی نہ رہتی۔
ان کی بڑی آپا کبھی کبھار جو اُن کی طرف آنکلتیں تو صابرہ بیگم دل ہی دل میں ان کے جلدی جانے کی دعائیں مانگا کرتیں۔
آپا بہن کو حد درجہ مصروف دیکھ کر کہتیں ’’دیکھو تم بھاگم بھاگ ہر کام نپٹا رہی ہو لیکن نماز کا وقت نکلا جارہا ہے، نماز تمہیں کبھی بھی یاد نہیں رہتی، باقی دنیا کا ہر کام تم وقت پر یاد سے کرتی ہو۔ صابرہ دنیا میں اتنی مگن نہ ہو۔ اللہ سے بھی ایک تعلق اور رشتہ استوار کرو، یوں دنیا کے لیے گھن چکر نہ بنو۔‘‘
صابرہ کو یہ نصیحت نہایت بری لگتی، کہتیں ’’میں اپنے بیٹے میں مگن ہوں، دنیا میں نہیں۔ دیکھیے گا بہو گھر آجائے اور گھر سنبھال لے تو میں فرصت سے اپنی تمام نمازیں پوری کروں گی اور مصلے سے نہ اٹھوں گی۔‘‘
آپا جان دکھ سے کہتیں ’’دنیاوی ناپائیدار رشتوں سے اتنی پائیدار توقعات نہیں رکھنی چاہئیں۔ توقع صرف اللہ ہی سے رکھو، وہی نیّا پار لگانے والا ہے۔‘‘
وقت انہی چاؤ چونچلوں میں آگے کی طرف سرکتا رہا۔ احمر کے تعلیمی مراحل مکمل ہوئے۔ اس کو انجینئر کی ڈگری اور ماں کو بے حیثیت اور بے وقعت ہونے کی ڈگری بھی شاید اسی دن دے دی گئی تھی۔ ماں کی دعاؤں کے صدقے شاندار ملازمت بھی احمر کو مل گئی۔
ملازمت ملنے کے بعد شادی کی فکر ہوئی تو وہ بہت خوش تھیں کہ اپنی پسند کی لڑکی ڈھونڈ کر لاؤں گی، وہ ایسی ہوگی۔۔۔ ویسی ہوگی۔
مگر احمر نے یہ کہہ کر ان کے تمام ارمانوں پر پانی پھیر دیا کہ میں نے لڑکی پسند کرلی ہے۔ آپ فلاں فلاں گھر جاکر رشتہ مانگ لیں اور بات پکی کرلیں۔
صابرہ بیگم بہت ہی افسردہ اور ملول ہوئیں لیکن پھر بھی تمام معاملات نپٹا آئیں۔ لاڈلے بیٹے کی پسند پر خوش تھیں۔ ایک دن بولیں ’’تم ذرا جلدی گھر آجاؤ تو میں زیور اور کپڑوں کی خریداری اپنی پسند سے کرلوں۔ بڑا ارمان ہے مجھے عروسی ملبوسات خریدنے کا، اور میچنگ زیورات کتنے خوب صورت اور دل کش ہوتے ہیں۔ کپڑوں سے میچنگ کرکے وہ تو لوں گی، ہاں سونے کا سیٹ میں اپنا تڑوا کر دلہن کے لیے بنوا لوں گی۔ صرف سونے کے جڑاؤ کنگن لوں گی۔۔۔ بڑا شوق تھا مجھے پہننے کا، اب بہو پہنے گی اور میں خوش ہوں گی۔‘‘
لیکن یہ کہہ کر احمر نے صابرہ بیگم پر گھڑوں پانی ڈال دیا کہ ’’نہیں امی اس کی ضرورت نہیں، میں اور زارا خود ہی جاکر خریداری کرلیں گے، آپ کہاں بازاروں میں خوار ہوتی پھریں گی۔‘‘
بہرحال شادی انجام پائی۔ شادی کے ایک ماہ بعد کافی ناز برداریاں اٹھانے اور دعوتوں سے فارغ ہونے کے بعد ایک دن جب صابرہ بیگم ناشتے سے فارغ ہوکر تھکن سے چور بیٹھی تھیں کہ خلافِ توقع بہو کمرے سے برآمد ہوئیں۔ صابرہ بیگم سمجھیں کہ آرام کر کرکے تھک گئی ہیں اس لیے گھرداری کرنے کچن کی طرف آنکلی ہیں۔
سادہ مزاج ساس نے بڑے مشفقانہ انداز میں بہو سے کہا کہ وہ آج دوپہر کا کھانا تیار کرلے۔
بہو بولی ’’بس بس۔۔۔ شادی سے پہلے بازاروں کے چکر، پسندیدہ خریداری، پارلر کے چکر، پھر شادی کے پانچ فنکشن، مہندی میں ڈانس کی پریکٹس اور پھر شادی کے بعد کی دعوتیں بھگتا بھگتا کر میں بے حال ہوگئی ہوں، آج ناشتا کرنے کیا نکلی کمرے سے کہ آپ نے کھانے کا مینو بتانا شروع کردیا!‘‘
بہو بیگم نہ جانے کیا کیا بولیں، صابرہ بیگم کا دماغ سُن ہوگیا اور وہ وہاں سے بمشکل اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں۔
آج ظہر کی اذان کی آواز فوراً ان کے کانوں تک پہنچی، ابھی اذان ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے نماز کی نیت باندھ لی اور کچھ ایسی نماز میں غرق ہوئیں گویا وہ اُن تمام نمازوں کا ازالہ کرنا چاہتی ہوں جو انہوں نے یا تو پڑھی ہی نہ تھی یا جلدی جلدی دوپہر کے کھانے کے انتظام کے تحت پڑھی تھیں۔
ابھی وہ اپنے رب سے رابطے میں منہمک تھیں کہ احمر نے کمرے میں قدم رکھا اور یوں گویا ہوا ’’امی مجھے آپ سے یہ امید نہ تھی، آپ کو نئی آنے والی بہو کا خیال رکھنا چاہیے تھا، بجائے اس کے آپ نے یہ ہنگامہ مچایا ہے۔‘‘
صابرہ بیگم پریشان ہوکر بولیں ’’میرے کان تو منتظر تھے کہ تم اپنی بیوی سے کہو ’’دیکھو میری امی کا خیال رکھنا، اب انہیں کوئی تکلیف نہ ہو‘‘، الٹا تم مجھے نصیحت کررہے ہو۔‘‘
احمر بولا ’’امی آپ روایتی ساس بننے کی کوشش نہ کریں، اگر آپ کھانا وغیرہ نہیں پکا سکتیں تو زارا کو کیوں کہا؟ وہ بہت حساس اور کمزور دل لڑکی ہے، اس کی دل آزاری کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔‘‘
نماز پڑھتے ہوئے وہ سوچتے سوچتے تھک گئیں۔ اس ایک مہینے میں کتنی افتاد مجھ پر پڑی ہیں۔ بہو کی تمام بدمزاجی کے باوجود انہوں نے چاہا کہ بات چیت کے ذریعے گھر کا ماحول بہتر بنایا جائے۔ انہوں نے بہو سے بات چیت کرنی چاہی۔ اِدھر اُدھر کی باتیں سنائیں۔ اپنے شب و روز کی کہانیاں، اپنی ساس، نندوں کی کار گزاریاں کہ کسی طرح بہو کا دل بہلے، لیکن یہ بھی بہو کو گوارا نہ ہوا۔ میاں کے کان بھرے کہ امی تو مجھ پر ہر وقت طنز کرتی رہتی ہیں، مجھ سے ان کے طعنے تشنے برداشت نہیں ہوتے۔
صابرہ بیگم بوکھلا گئیں۔ طنز ان کے پیش نظر نہ تھا۔ لہٰذا خاموش ہوگئیں اور یہ حال ہوا کہ۔۔۔
بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
ایک دن صابرہ بیگم کی بیٹی خوشی خوشی اپنی نئی بھابھی سے ملنے میکے آئی۔ بہو بڑی چاہت سے اس طرح نند سے ملیں کہ ان سے زیادہ کوئی دوسرا محبت کرنے والا ہے ہی نہیں۔ زبان سے شیرینی کے چند قطرے ٹپکاکر بہو بیگم نے بازار سے بریانی کے پیکٹ منگوا کر سامنے رکھ دیے۔ نہ سلاد نہ رائتہ، یہ تو اس گھر کی روایت نہ تھی۔۔۔ پھر حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر بولیں: جتنا چاہے کھائیں، میں تو ذرا ڈائٹنگ پر ہوں۔ اس طرح برتن سمیٹنے اور دھونے کے جھنجھٹ سے بڑی صفائی سے بچ نکلیں۔ ہاں احمر کے گھر میں داخل ہوتے ہی اسے اپنے کمرے میں بلا کر کہہ دیا کہ آج بہن کو رات ٹھیرانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ بچوں نے صبح سے اُدھم مچایا ہوا ہے، پھر تمہاری بہن نے باتیں کرکرکے دماغ ہی پکا دیا ہے، اب میں ذرا سکون چاہتی ہوں، سمجھے۔
لہٰذ دس، پندرہ دن بعد آنے والی بہن سے کہہ دیا گیا کہ ’’آج تو ہم لوگ شادی میں جارہے ہیں، واپسی ظاہر ہے دلہن کی رخصتی کے بعد یعنی چار بجے تک ہوگی، تم اپنے میاں کو فون کرکے بلا لو اور چلی جاؤ، ہاں امی جان بھی تو ہمارے ساتھ ہی جائیں گی۔‘‘
اور صابرہ بیگم دَم بخود دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں۔ وہ بھائی جو بہن کو زبردستی روکتا اور بچوں کے ساتھ اس قدر غل مچاتا کہ سارا گھر گونج اٹھتا، کہاں کھو گیا ہے؟
آج بیماری اور تکلیف کے عالم میں انہیں آپا جان شدت سے یاد آرہی تھیں۔ وہ بہت غمزدہ ہوکر سوچ رہی تھیں کہ جس بیٹے کے لیے انہوں نے اللہ کو بھلا دیا، فرض نمازوں میں کوتاہی کی، اس کی خدمتوں میں لگی رہیں، آج وہ کتنا بے خبر و مگن ہے۔ بیماریوں کے باعث زندگی دگرگوں ہے، اٹھنا، بیٹھنا، چلنا پھرنا دوبھر ہے۔ ’’آپا جان آپ ٹھیک ہی کہتی تھیں کہ کاش میں اپنے اللہ سے رشتہ استوار کرتی، اللہ سے توقعات وابستہ کرتی، اللہ پر توکل کرتی تو آج اس بے اطمینانی اور بے سکونی کی کیفیت سے دوچار نہ ہوتی۔ دنیاوی رشتے کتنے بے وقعت اور کمزور ہیں، اچانک ہی ٹوٹ جاتے یا کمزور پڑ جاتے ہیں۔۔۔ اٹوٹ رشتہ تو صرف اسی ذاتِ واحد سے جوڑا جاسکتا ہے، اسی سے توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ وہی اس زندگی کو سکون و خوشی سے لبریز اور آخرت کو منور و شاداب کرسکتا ہے، وہی ہمارا پالن ہار ہے، وہی نیّا پار لگانے والا ہے۔‘‘
nn