152زیز ساتھیو، چوتھی صدی ہجری میں طرابلس کے ساحلی علاقے میں تندو تیز ہوائیں چلتی تھیں۔ ان ہواؤں سے سمندر میں ہر وقت طوفان کی سی حالت برپا رہتی، اس لیے جب بھی باہر سے کوئی جہاز آتا تو اسے لنگر ڈالنے میں شدید پریشانی ہوتی۔ شہر میں بسنے والوں نے جہاز والوں کی تکلیف کو محسوس کیا اور یہ انتظام کیا کہ جب بھی کوئی جہاز بندرگاہ کے نزدیک آتا تو یہ لوگ اپنی ذاتی کشتیوں اور جہازوں میں سوار ہوکر اس کے قریب پہنچ جاتے اور اسے لنگر ڈالنے کے لیے جن بھاری رسّوں کی ضرورت ہوتی، اس کی طرف پھینک دیتے۔ یہاں تک کہ وہ جہاز لنگر ڈالنے میں کام یاب ہوجاتا۔
اسلامی عہدِ حکومت میں وقف کی ہوئی چیزوں کو خرچ کرنے کے بھی انوکھے انداز تھے، مثلاً تیونس کے ساحلی علاقے میں خاص قسم کی ایسی مچھلیاں پائی جاتی تھیں، جو لذّت میں اپنی مثال آپ تھیں، مگر ان کی قیمت بہت زیادہ تھی۔ غریب لوگ انہیں کھا نہیں سکتے تھے۔ یہ دیکھ کر تیونس کے ایک امیر نے اپنی جائداد مچھلیوں کے غریب شوقینوں کے لیے وقف کردی۔ ایک اور امیر نے اپنی تمام جائداد غریب لڑکیوں کی شادی کے لیے وقف کردی تھی۔ اس کی آمدنی سے لڑکیوں کا جہیز اور دوسری ضروری چیزوں کا انتظام کیا جاتا تھا۔
حافظ ابن العربی کی دولت اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی آمدنی کا سارا روپیہ نیک کاموں میں خرچ کردیتے تھے۔ اُندلس کے شہر اشبیلہ کی شہر پناہ انہوں نے اپنے ذاتی خرچ سے تعمیر کروائی تھی۔ ایک اور عالم دین امام لیث مصری کی ایک سال کی آمدنی 80 ہزار اشرفیاں، یعنی 8 لاکھ روپیہ تھی۔ لیکن ان پر کبھی زکوٰۃ واجب نہیں ہوئی، کیوں کہ سال کے پورا ہونے سے پہلے پہلے وہ اپنی آمدنی نیک کاموں میں صرف کردیتے تھے۔ عامر بن عبداللہ اُن عالموں میں سے تھے، جنہوں نے اپنی زندگی کا مقصد صرف عبادت اور ریاضت کو بنالیا تھا۔ وہ اتنا وسیع دل رکھتے تھے کہ اپنے دشمنوں کے لیے بھی دعا ہی کرتے تھے، سخی ایسے تھے کہ دوہزار روپیہ وظیفہ ملتا تھا، ملتے ہی مستحق لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کردیتے اور گھر پہنچتے پہنچتے یہ روپیہ ختم ہوجاتا۔ عامر بن عبداللہ، عبادت کے ساتھ ساتھ اکثر لڑائیوں میں جہاد کا فرض ادا کرنے کے لیے بھی شامل ہوتے۔ لڑائی کے میدان میں جانے سے پہلے ایک ایسا ساتھی تلاش کرتے، جو ان شرطوں کو مان لے: پہلی، میں تمہارا مؤذن رہوں گا۔ دوسری، میں ہی تمہاری خدمت کروں گا، اس میں کوئی دخل نہ دے۔ تیسری، اپنی حیثیت کے مطابق تمہارا خرچ اپنی جیب سے ادا کروں گا۔ وہ راستے میں اپنی سواری پر باری باری دوسرے مجاہدین کو سوار بھی کراتے تھے۔
مدینہ منورہ کے ایک گوشے میں ایک نابینا بڑھیا رہتی تھی۔ حضرت عمر فاروقؓ ہر روز سویرے اس کے گھر جاتے اور اس کا سارا کام کردیتے۔ ایک دن جب وہاں گئے تو دیکھا کام پہلے ہی سے ہوچکا ہے۔ یہ دیکھ کر خدمت نہ کرسکنے کا رنج ہوا۔ نئے آنے والے خادم کا پتا چلانے کے لیے ایک روز زیادہ سویرے اٹھے اور بڑھیا کے مکان کے نزدیک ایک مقام پر چھپ گئے۔ تھوڑی دیر بعد خدمت کرنے والا نیا خادم آیا اور بوڑھی عورت کا کام کرکے واپس چلا گیا۔ حضرت عمرؓ نے انہیں پہچان لیا۔ وہ پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، جنہوں نے غریبوں اور محتاجوں کی خدمت اپنے ذاتی فرائض میں شامل کرلی تھی۔
ایک ہمارے حکمراں ہیں، جب باہر نکلتے ہیں تو ان کے لیے سڑکیں بند کردی جاتی ہیں، گاڑیاں روک دی جاتی ہیں، ٹریفک ان کی وجہ سے کئی کئی گھنٹوں رُکا رہتا ہے، جس سے لوگوں کو شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آج کے حکمراں عوام کی خدمت کے بجائے انہیں پریشان کرتے ہیں۔ انہیں بھوک، پیاس، لوڈشیدنگ اور دیگر تکالیف میں مبتلا رکھتے ہیں اور ان سے وصول ہونے والے ٹیکسوں کا پیسہ ان پر خرچ کرنے کے بجائے اپنی ذات اور اپنے عزیز و اقارب پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ اللہ کے ہاں اس کا حساب دینا ہوگا اور وہاں وہ یہ حساب دے نہیں سکیں گے۔
nn